The heart longed for words that could express its pain and sorrow for the ongoing massacre in Gaza. And then it found this poignant poem by Dr. Nighat Naseem (Sydney), posted on Jan 10, 2009 at this link (the link also has a Farsi translation of this poem).
غزہ کی شامِ غریباں
۔۔۔۔۔۔۔۔
چودہ سوسال کے
بعد بھی ہم کربلا میں ہی ہیں
وہی یزید ابنِ یزید ابنِ یزید ابنِ یزید
وہی تقاضہ ء بیعت
وہی منافقت کی قبائیں اوڑھے ہوئے بدبودار ضمیر فروش حاکم
وہی فرات کے کنارے کربلا کی طرح غزہ کی پٹی
وہی رات کے سناٹے میں تاریکی کے بین
وہی کربلا ہے،وہی شام غریباں ہے اور وہی معصوم اور شیر خوار بچوں پر ظلم کی آخری حد
قسم ہے مجھکو میری خون روتی آنکھوں کی
اس کربلا سے اس کربلا تک کچھ بھی تو نہیں بدلا
میں سہمی ہوئی اپنی سوچوں سے لپٹی
خود سے ہی پوچھتی ہوں
ہاں سنو
کیا تمہیں جنگ کی وہ سیاہ رات یاد ھے
جب اچانک سائرن بج اٹھے تھے
اور بارود کی بو پھیل گئی تھی
چیخوں کے ساتھ ھر طرف خون بکھر گیا تھا
اس رات غزہ پر کیا گزری
کسی نے نہ سوچا
کسی نے نہ پوچھا
ہائے
ایسی وحشت کی راتیں کیسے گزرتی ھیں
اندھیروں میں ڈوبی شبیہیں کیسے دھندلاتی ھیں
بھوک سے لپٹی جانیں کیسے مر جاتی ھیں
غم میں سوختہ جاں مائیں کیسے بین کرتی ھیں
ظالم مظلوم کو کیسے رسوا کرتا ہے
بارود کیسے خون میں اُتر جاتا ہے اور نسوں میں دوڑتا ہے
بوڑھا باپ جوان میت کو رخصت کرتے ہوئے کیسے چومتا ہے
سات سال کی بچی اپنی پانچ سالہ بہن کو کیسے دلاسہ دیتی ہے
کیسے تین روز تک
چار بچے اپنی ماں کی لاش سے لپٹے رہتے ہیں
کیا تم نے سوچا
کیا تم نے پوچھا
غزہ پر اس رات کیا گزری
چلو آج
اکیسوی صدی کانوحہ لکھ دو
انسانیت کو بربریت لکھ دو
یہ بھی لکھ دو
اس دنیامیں ایک جہاں وہ بھی ھے
جہاں انسان
ایک قطرہ پانی کو ترستے ھیں
ایک نوالہ روٹی کو تاکتے ھے
نڈھال اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے ھیں
بچے اپنے ھی گھروں کا پتہ پوچھتے ھیں
ہائے
کیا اب یہاں کوئی انسان بھی بستا ھے
یا
پھر اب یہاں ایک ھی جہاں بستا ھے
طاقت کا منافقت کا جھوٹ کا اور نفرت کا جہاں
جہاں
معصوم بچے مر رھے ھیں
جتنی بارود کی بو پھیلتی ھے
اتنے ھی انسان مر رھیں ھیں
جتنی چیخیں گونجتی ھیں
اتنے ھی لاشے گر رھے ھیں
لوگو
یہ غزہ کے نہتے مسلمان نہیں
ھم تم مر رھے ھیں
آج
غزہ کا ایک ایک بچہ پکار رھا ھے
اسی دنیا کو کس نے مقتل بنارکھا ھے
پھولوں کی جگہ لاشوں کواگا رکھا ھے
خوف
اداسی
ناامیدی
کس نے ھمارا مقدر بنارکھا ھے ؟
فرات کے کنارے بسی ہوئی غزہ کی بستی کے گھروں میں
اکیسویں صدی کی شامِ غریباں ہے
گھروں سے دھواں برابر اٹھ رہا ہے
اور یہ سب انسانی حقوق کے داعی اس جدید عہد کے
یزیدوں کا کام ہے
جو سب ایک ساتھ مل کر بیعت کا تقاضہ کر رہے ہیں
مگر کریں کیا کہ
"قافلہ حجاز میں ایک بھی حسین نہیں"
وہی یزید ابنِ یزید ابنِ یزید ابنِ یزید
وہی تقاضہ ء بیعت
وہی منافقت کی قبائیں اوڑھے ہوئے بدبودار ضمیر فروش حاکم
وہی فرات کے کنارے کربلا کی طرح غزہ کی پٹی
وہی رات کے سناٹے میں تاریکی کے بین
وہی کربلا ہے،وہی شام غریباں ہے اور وہی معصوم اور شیر خوار بچوں پر ظلم کی آخری حد
قسم ہے مجھکو میری خون روتی آنکھوں کی
اس کربلا سے اس کربلا تک کچھ بھی تو نہیں بدلا
میں سہمی ہوئی اپنی سوچوں سے لپٹی
خود سے ہی پوچھتی ہوں
ہاں سنو
کیا تمہیں جنگ کی وہ سیاہ رات یاد ھے
جب اچانک سائرن بج اٹھے تھے
اور بارود کی بو پھیل گئی تھی
چیخوں کے ساتھ ھر طرف خون بکھر گیا تھا
اس رات غزہ پر کیا گزری
کسی نے نہ سوچا
کسی نے نہ پوچھا
ہائے
ایسی وحشت کی راتیں کیسے گزرتی ھیں
اندھیروں میں ڈوبی شبیہیں کیسے دھندلاتی ھیں
بھوک سے لپٹی جانیں کیسے مر جاتی ھیں
غم میں سوختہ جاں مائیں کیسے بین کرتی ھیں
ظالم مظلوم کو کیسے رسوا کرتا ہے
بارود کیسے خون میں اُتر جاتا ہے اور نسوں میں دوڑتا ہے
بوڑھا باپ جوان میت کو رخصت کرتے ہوئے کیسے چومتا ہے
سات سال کی بچی اپنی پانچ سالہ بہن کو کیسے دلاسہ دیتی ہے
کیسے تین روز تک
چار بچے اپنی ماں کی لاش سے لپٹے رہتے ہیں
کیا تم نے سوچا
کیا تم نے پوچھا
غزہ پر اس رات کیا گزری
چلو آج
اکیسوی صدی کانوحہ لکھ دو
انسانیت کو بربریت لکھ دو
یہ بھی لکھ دو
اس دنیامیں ایک جہاں وہ بھی ھے
جہاں انسان
ایک قطرہ پانی کو ترستے ھیں
ایک نوالہ روٹی کو تاکتے ھے
نڈھال اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے ھیں
بچے اپنے ھی گھروں کا پتہ پوچھتے ھیں
ہائے
کیا اب یہاں کوئی انسان بھی بستا ھے
یا
پھر اب یہاں ایک ھی جہاں بستا ھے
طاقت کا منافقت کا جھوٹ کا اور نفرت کا جہاں
جہاں
معصوم بچے مر رھے ھیں
جتنی بارود کی بو پھیلتی ھے
اتنے ھی انسان مر رھیں ھیں
جتنی چیخیں گونجتی ھیں
اتنے ھی لاشے گر رھے ھیں
لوگو
یہ غزہ کے نہتے مسلمان نہیں
ھم تم مر رھے ھیں
آج
غزہ کا ایک ایک بچہ پکار رھا ھے
اسی دنیا کو کس نے مقتل بنارکھا ھے
پھولوں کی جگہ لاشوں کواگا رکھا ھے
خوف
اداسی
ناامیدی
کس نے ھمارا مقدر بنارکھا ھے ؟
فرات کے کنارے بسی ہوئی غزہ کی بستی کے گھروں میں
اکیسویں صدی کی شامِ غریباں ہے
گھروں سے دھواں برابر اٹھ رہا ہے
اور یہ سب انسانی حقوق کے داعی اس جدید عہد کے
یزیدوں کا کام ہے
جو سب ایک ساتھ مل کر بیعت کا تقاضہ کر رہے ہیں
مگر کریں کیا کہ
"قافلہ حجاز میں ایک بھی حسین نہیں"
ڈاکٹر
نگہت نسیم
No comments:
Post a Comment